حرفِ آغاز

اسلام ایك مكمل طریقہٴ كار اور راہِ نجات زندگی ہے

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

          اسلام صرف چند اصول ونظریات اور علوم وافکار کا مجموعہ نہیں؛ بلکہ وہ اپنے جلو میں مکمل نظامِ عمل لے کر چلتا ہے، دینِ اسلام جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں اصول وقواعد پیش کرتا ہے، وہیں ایک ایک جزئیہ کی عملی تشکیل بھی کرتا ہے؛ چونکہ خاتمیِ مرتبت، نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم نبوت ورسالت ہیں اور دینِ اسلام مالکِ کائنات کا آخری پسندیدہ دین ہے؛ اس لیے یہ ضروری تھا کہ شریعتِ محمدیہ (عَلی صَاحِبِھَا ألْفُ ألْفُ صلوٰةٍ وَسَلَامٍ) کی علمی وعملی دونوں پہلوؤں سے حفاظت کی جائے اور قیامت تک ایسی جماعت کا سلسلہ جاری رہے جو شریعتِ مطہرہ کے علم وعمل کی حامل وامین اور داعی ونقیب ہو؛ چنانچہ حق تعالیٰ نے دینِ اسلام کی دونوں طرح سے حفاظت فرمائی۔

          حفاظتِ دین کے ذرائع میں ”صحابہٴ کرام“ کی جماعت سرِفہرست ہے، اس برگزیدہ جماعت نے (جسے خود ربِ کائنات نے پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ومعیت کے لیے منتخب فرمایا تھا) براہِ راست صاحبِ وحی سے دین کو سیکھا پھر اس پر عمل کیا اور اپنے بعد آنے والی نسلوں تک دین کو من وعن پہنچایا، ان بزرگوں نے معلمِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تربیت اخلاق واعمال کو منشائے خداوندی کے مطابق درست کیا، سیرت و کردار کی پاکیزگری حاصل کی اور رضائے الٰہی کے لیے اپنا سب کچھ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کردیا۔

          غرض اس پوری کائنات میں صرف اور صرف حضراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم کی وہ واحد مقدس جماعت ہے جن کی تعلیم و تربیت کے لیے سرورِ کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم اور استاذ مقرر کیاگیا، اس انعام خداوندی پر وہ جس قدر بھی شکر کریں کم ہے اور جتنا بھی فخر کریں بجا ہے۔

          چونکہ نبیِ آخرُ الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی وعملی میراث اور آسمانی امانت ان حضرات کے سپرد کی جارہی تھی؛ اس لیے یہ ضروری تھا کہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ حضرات قابلِ اعتماد واستناد ہوں؛ چنانچہ قرآن وحدیث میں جگہ جگہ ان کے فضائل ومناقب بیان کیے گئے اور ان کی بے پایاں عظمتوں کو آشکارا کیاگیا، ان کے اخلاص و للہیت کی شہادت دی گئی اور انھیں بارگاہِ خداوندی سے یہ رتبہٴ بلند عطا ہوا کہ انھیں رسالتِ محمدی (عَلیٰ صَاحِبِھَا الصَّلوٰةُ وَالسَّلاَمُ) کے عادل گواہوں کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیاگیا، فرمانِ الٰہی ہے:

          مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ، وَالَّذِیْنَ مَعَہ أشِدَّاءُ عَلٰی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ، تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِنَ اللہِ وَرِضْوَاناً (الآیة)

محمد، اللہ کے رسول ہیں اور جو ایمان والے ان کے ساتھ ہیں وہ منکرین پر سخت اور باہم شفیق ہیں، تم انھیں دیکھوگے رکوع اور سجدے میں، وہ صرف اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں۔

          گویا یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ایک دعویٰ ہے اور اس کے ثبوت میں حضراتِ صحابہ کی سیرت کردار کو پیش کیاگیا ہے کہ جسے نبیِ صادق و امین کی صداقت میں شک وشبہ ہو اُسے آپ کے رفقاء اور ساتھیوں کی پاکیزہ زندگی کا مطالعہ کرکے خود اپنے ضمیر سے یہ فیصلہ لینا چاہیے کہ جن کے صحبت یاب اور ہم نشین اس قدر بلند کردار اور پاکباز ہوں وہ خود صدق وراستی کے کس مقام بلند پر فائز ہوں گے۔

          پھر نبیِ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے بے شمار فضائل بیان فرمائے، بالخصوص خلفائے راشدین حضرت صدیق اکبر، حضرت عمر فاروقِ اعظم، حضرت عثمان ذو النُّورَین، حضرت علی مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب سے احادیث کی کتابیں بھری ہوئی ہیں۔ الحاصل جس کثرت وشدت اور تواتر وتسلسل کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے اوصاف و کمالات اور مزایا وخصوصیات کو بیان فرمایا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے علم میں یہ بات لانا چاہتے تھے کہ میرے صحابہ پر بھرپور اعتماد کیا جائے اور انھیں عام افرادِ امت پر قیاس کرنے کی غلطی نہ کی جائے، ان کا تعلق وربط براہِ راست آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے ہے؛ اس لیے ان کی محبت عین محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ان کے حق میں ادنیٰ لب کشائی ناقابلِ معافی جرم ہے، ارشاد ہے:

          اَللہَ اللہَ فِيْ أصْحَابِيْ، اللہَ اللہَ فِيْ أصْحَابِيْ، لاَ تَتَّخِذُوْھُمْ غَرْضاً مِنْ بَعْدِي، فَمَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّيْ اَحَبَّھُمْ، وَمَنْ أبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِيْ أبْغَضَھُمْ وَمَنْ أذَاھُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذیٰ اللہَ وَمَنْ آذَیٰ اللہَ فَیُوْشِکُ أنْ یَأخُذَہ

اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے بارے میں، میرے بعد انھیں ہدفِ تنقید نہ بنانا؛ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنیاد پر ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض رکھنے کی بناء پر ان سے بغض رکھا، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی، اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کے ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اُسے پکڑلے۔

          اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو پابند کیا کہ میری سنت کے ساتھ خلفائے راشدین کے طریقہ اور راہِ عمل کو بھی لازم پکڑیں۔

          الغرض کتاب وسنت کے نصوص بتارہے ہیں کہ:

۱-       سارے صحابہ کو اللہ رب العزت کی دائمی رضا وخوشنودی حاصل ہے۔

۲-       جملہ صحابہ آپس میں برادرانہ اُلفت ومحبت رکھتے تھے۔

۳-       ہر ایک صحابی کا دل ایمان واخلاص کی الفت سے مزین اور کفر، فسق اور نافرمانی سے متنفر تھا۔

۴-       حضراتِ صحابہ اللہ تعالیٰ کے منتخب وبرگزیدہ ہیں، جماعتِ انبیاء کے علاوہ جن و بشر کا کوئی بھی فرد ان کی عظمتِ شان کو نہیں پہنچ سکتا۔

۵-       صحابہ کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان سے بغض، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض ہے۔

۶-       صحابہ کو تنقید و تنقیص کا نشانہ بنانا حرام ہے۔

۷-       امت کا سارا شرف ومجد صحابہ کے ساتھ وابستگی پر موقوف ہے۔

          قرآن وحدیث کی ان واضح اور روشن ہدایات کے بالمقابل عصرِ حاضر کے اہلِ ظواہر کہتے ہیں:

۱-       امیرالموٴمنین حضرت عمر بن خطاب جو روایت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کریں اس میں وہ یقینا اور قطعاً سچے ہیں؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ روایت کی طرح ان کی درایت (فہم) ہم پر واجب التعمیل نہیں، بہت ممکن ہے کہ وہ درست نہ ہو“ (شمع محمدی ص۹ طبع کراچی)

          اسی صفحہ پر جملہ صحابہٴ کرام کے بارے میں اسی موقف کی وضاحت کی گئی ہے۔

۲-       صحابہ کی درایت معتبر نہیں(شمعِ محمدی)

۳-       کردارِ صحابی حجت نیست اگرچہ بصحت رسد (بدور الاہلہ ج۱ ص۲۸) صحابی کا کردار اگرچہ صحیح طور پر ثابت ہو حجت و دلیل نہیں ہے۔

۴-       وَمَا ھُوَ مَوْقُوْفٌ عَلٰی صَحَابِیٍ أوْ تَابِعِيٍ لاَ تَقُوْمُ بِہ الْحُجَّةُ (الروضة الندیہ ج۱ص۷۷) صحابی وتابعی کے قول سے حجت ودلیل قائم نہیں ہوگی۔

۵-       دینِ اسلام صرف وحیِ الٰہی کا نام ہے، یعنی قرآن مجید اور صحیح احادیث اس کے علاوہ کسی کا قول یا عمل دینِ اسلام نہیں ہے خواہ صحابہ ہوں (دعوت الی الخیر ص۳ طبع کراچی)

۶-       خطبہٴ جمعہ میں خلفاء کے ذکر کا التزام بدعت ہے (ہدایة المہدی ج۱ ص۱۱۰)

          حضرت فاروقِ اعظم نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دیاتھا، اس کے خلاف ایک جدید ظاہری کا تیور دیکھیے! فرماتے ہیں:

۷-       پھر آپ اور ہم اُسے کیوں مانیں ہم فاروقی تو نہیں محمدی ہیں، ہم نے ان کا کلمہ تو نہیں پڑھا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے (فتاویٰ ثنائیہ ج۲ ص۲۵۲ مطبوعہ ادارہ ترجمان السنة لاہور)

۸-       بعض صحابہ فاسق تھے، جیسے ولید بن عُقبہ، معاویہ، عمرو، مغیرہ، سَمُرة (نزل الابرار ج۳ ص۹۴) نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکَ!

”ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بہ کجا“

***

---------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الثانی 1434 ہجری مطابق فروری 2013ء